یورپ جو کبھی معتدل موسم اور خوشگوار آب و ہوا کے لیے مشہور تھا، اب شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یورپی ممالک میں ہیٹ ویوز کی تعداد اور شدت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2003 میں فرانس میں 15,000 سے زائد اموات، 2019 میں فرانس کا درجہ حرارت 46°C تک پہنچنا، اور 2022 میں برطانیہ میں پہلی بار 40°C کا درجہ حرارت ریکارڈ ہونا اس بات کی واضح علامات ہیں کہ یورپ کا موسمی نظام تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
اس تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں فوسل فیولز کا استعمال بڑھا ہے، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ناسا کے اعداد و شمار کے مطابق، زمین کا اوسط درجہ حرارت پچھلی صدی کے مقابلے میں 1.2°C بڑھ چکا ہے۔ یہ ظاہری طور پر معمولی سا اضافہ درحقیقت ماحولیاتی نظام پر انتہائی شدید اثرات مرتب کر رہا ہے۔
گرمی میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ جیٹ اسٹریم میں آنے والی خرابی ہے۔ یہ ہوائی دھارے جو کبھی یورپ کے موسم کو متوازن رکھتے تھے، اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کمزور ہو رہے ہیں۔ جب جیٹ اسٹریم کی رفتار سست ہوتی ہے تو گرم ہوائیں طویل عرصے تک ایک ہی جگہ پر رک جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں ہیٹ ویوز کئی ہفتوں تک جاری رہتی ہیں۔ 2022 میں برطانیہ میں ہفتہ بھر چلنے والی 40°C کی گرمی اسی کی ایک مثال ہے۔
شہروں میں "ہیٹ آئی لینڈ" اثر بھی ہیٹ ویوز کی شدت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بڑے شہروں میں کنکریٹ کی عمارتیں، اسفالٹ کی سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر دن بھر گرمی جذب کرتے ہیں اور رات کے وقت اسے خارج کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں شہروں کا درجہ حرارت قریبی دیہی علاقوں کے مقابلے میں 5-10°C زیادہ ہو سکتا ہے۔ لندن، پیرس اور میڈرڈ جیسے بڑے شہر اس اثر کی زد میں سب سے زیادہ ہیں۔
جنگلات کی کٹائی بھی ہیٹ ویوز کی شدت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ درخت اور سبزہ زار زمین کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتے ہیں، لیکن شہری توسیع اور صنعتی ترقی کی وجہ سے یورپ میں جنگلات کا رقبہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔ اسپین اور پرتگال میں جنگلات کی آگ کے بعد بنجر ہونے والی زمینیں گرمی کو اور زیادہ جذب کر رہی ہیں، جس سے مسئلہ مزید گمبھیر ہو رہا ہے۔
سمندروں کا گرم ہونا بھی یورپ کے موسم پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم کے درجہ حرارت میں اضافہ یورپی موسم کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ 2023 میں بحیرہ روم کا درجہ حرارت 30°C تک پہنچ گیا تھا، جس نے اٹلی اور یونان میں ہیٹ ویو کو ہوا دی۔ گرم سمندر نہ صرف ہوا کے درجہ حرارت کو بڑھاتے ہیں بلکہ طوفانوں اور دیگر شدید موسمی واقعات کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے ماہرین کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک یورپ میں ہیٹ ویوز کی تعداد اور شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف انسانی زندگی کے لیے خطرہ ہے بلکہ زراعت، معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، فصلیں تباہ ہو سکتی ہیں، اور توانائی کے نظام پر غیر معمولی دباؤ پڑ سکتا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ کاربن اخراج کو کم کرنے، شہروں میں سبزے کو بڑھانے، اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے جامع پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر بیداری پیدا کرنا اور لوگوں کو ہیٹ ویوز سے بچاؤ کے طریقے بتانا بھی انتہائی ضروری ہے۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یورپ میں ہیٹ ویوز کا بڑھتا ہوا رجحان محض ایک موسمیاتی مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے اس پر توجہ نہ دی تو آنے والے سالوں میں اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر اس مسئلے کا مقابلہ کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ ماحول چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Post a Comment